عرب امارات اسرائیل معاہدہ خلیجی ریاستوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے
تاریخ ساز گیم چینجر دھوکہ اس مہینے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے اُس حیران کن اعلان کو طرح طرح کے القابات سے نوازا جا رہا ہے جس کے مطابق متحدہ عرب امارات اب اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرے گا.
سن 1979 میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے قائم کیا گیا جس کے بعد اردن نے ایسا ہی معاہدہ سن 1994 میں کیا۔
ان دونوں کے بعد اب یو اے ای تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات باضابطہ طور پر قائم کر لیے ہیں اور یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے جس نے ایسا کیا ہے۔
توقع ہے کہ مستقبل میں عمان، بحرین اور ممکنہ طور پر مراکش بھی ایسا قدم اٹھائیں
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین خفیہ طور پر تعلقات سالوں سے قائم تھے لیکن اس حالیہ معاہدے کی تفصیلات آخر وقت تک خفیہ رکھی گئی تھیں۔
متحدہ عرب امارات کی ابو ظہبی میں وزارت خارجہ سے اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی خطے کے کسی اور عرب ملک سے اس بارے میں بات کی گئی۔
اس اعلان سے ہر کوئی سکتے میں آ گیا لیکن سب سے زیادہ جھٹکا فلسطینیوں کو لگا جنھوں نے اس فیصلہ کو ’پیٹھ میں خنجر گھونپ دینا قرار دیا کیونکہ ان کو ابھی تک اپنی الگ ریاست نہیں دی جا رہی اور نہ ہی اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا ہے
لندن میں واقع انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ایمل ہوکائیم نے اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’اس میں فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور حقیقی طور پر حکمرانی کرنے والے شیخ محمد بن زید کے لیے یہ معاہدہ ایک جوئے سے کم نہیں ہے لیکن اس بازی میں ان کی جیت کے امکانات کافی زیادہ ہیں
اس معاہدے میں جو واضح خطرہ ہے وہ یہ کہ اس فیصلے سے خطے میں یو اے ای مسلمانوں میں کافی غیر مقبول ہو جائے گا اور سوشل میڈیا پر تو انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بک گئے
اور اگر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو مغربی کنارے کو مزید الحاق نہ کرنے کے وعدے سے مکر گئے تو نہ صرف یہ اماراتی شیخ کے لیے بہت شرمناک ہو گا بلکہ ممکن ہے کہ یہ معاہدے ہی ختم ہو جائیں
لیکن دوسری جانب ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ وائٹ ہاؤس سے بھی تنقید کو دعوت دینا اور ویسے بھی، خلیجی ریاستوں میں عام عوام کی جانب سے کیے جانے والا مظاہرہ ریاست کو نہیں بھاتا اور وہ اسے برداشت نہیں کرتیں
البتہ ایمل ہوکائیم کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں امارات کے لیے خطرے شاید کم ہیں
’یہ معاہدہ خطے میں امارات کی ساکھ کو متاثر نہیں کرے گا۔ یہ اس علاقے کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کی عکسی کرتا ہے اور اس کی مدد سے یو اے ای کی امریکہ میں بہت پذیرائی ہوگی جو کہ امارات کی یمن کی جنگ میں شرکت کرنے سے متاثر ہوئی تھی
یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ اس معاہدے کے محرکات کیا ہیں اور اس میں یو اے ای کے لیے کیا فائدہ ہے جو کہ بذات خود ایک قدرے نئی ریاست ہے اور اس کا قیام صرف سن 1971 میں ہوا تھا
اگر بات مختصر کی جائے، تو اس کے دو جواب ہیں ٹیکنالوجی اور سٹریٹیجک مفاد
سعودی عرب اور بحرین سمیت متحدہ عرب امارات کو علاقائی پڑوسی ایران پر نہ صرف اعتبار نہیں ہے، بلکہ وہ شاید اس سے ڈرتے بھی ہیں
خلیجی ممالک کے رہنما خطے کا نقشہ دیکھتے ہیں اور انھیں یہ نظر آتا ہے کہ ایران متعدد پابندیوں کے باوجود کس طرح اپنے مفادات دیگر ممالک میں مستحکم کر رہا ہے اور مشرق وسطی میں کیسے اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں، اور ایران کے پراکسی گروہ اب عراق، شام اور یمن میں موجود ہیں
اسرائیل کو بھی اسی نوعیت کے خدشات ہیں، خاص طور پر جب بات ایران کے جوہری پروگرام کی ہو
پھر اس کے علاوہ ایک ’سیاسی اسلام‘ کا تصور ہے، جس کا پرچار اخوان المسلمین کرتے رہے ہیں اور چند خلیجی رہنما اس تصور کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں
اخوان المسلمین کو سب سے زیادہ ناپسند کرنے والے فرد ہیں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یو اے ای نے لیبیا میں اخوان کے خلاف لڑنے والی قوتوں کی مدد کی ہے
زمینی حقائق کو دیکھیں تو اس حکمت عملی کی مدد سے مشرق وسطی کے مختلف قدامت پسند ممالک میں ایک غیر اعلانیہ شراکت داری قائم ہوگئی ہے اور اس میں اب اسرائیل بھی شامل ہے جس کی مدد سے ان کی خفیہ ایجنسی کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے
پھر دوسرا عنصر ہے ٹیکنالوجی کا جس میں شامل ہے بائیو ٹیکنالوجی، صحت، دفاع، اور سائبر نگرانی۔ یو اے ای پہلے ہی اسرائیل کے بنائے ہوئے جاسوسی کے پروگرام اپنے شہریوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے
اسرائیل خطے میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے سب سے آگے ہے۔ اور اگر یو اے ای کے ساتھ ان کا معاہدہ کامیاب ہو گیا تو یہ عرب امارات کے لیے مستقبل میں بہت کارآمد ہو گا اور اس سے ان کے اپنے شہریوں کو فائدہ پہنچے گا
مجھے یاد ہے کہ میں نے مسقط میں اسرائیل کے دفتر ان سے موقف لینے کے لیے فون کیا تو وہاں فون اٹھانے والے نے عبرانی زبان میں سلام کیا، لیکن فوراً ہی اس کو بدل کر مجھے عربی زبان میں سلام کیا
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسرائیل نے خطے کے دیگر ممالک سے اپنے مراسم قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔
سن 1995 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن، جنھیں کچھ عرصے کے بعد ایک انتہا پسند یہودی نے قتل کر دیا تھا، نے اپنے وزیر خارجہ شمعون پیریز کو عُمان اور قطر ایک سرکاری دورے پر بھیجا
اس کے بعد اسرائیل نے ان دونوں ممالک میں اپنے تجارتی دفاتر قائم کیے لیکن اس کی زیادہ تشہیر نہیں کی
مجھے یاد ہے کہ میں نے مسقط میں اسرائیل کے دفتر ان سے موقف لینے کے لیے فون کیا تو وہاں فون اٹھانے والے نے عبرانی زبان میں سلام کیا، لیکن فوراً ہی اس کو بدل کر مجھے عربی زبان میں سلام کیا
لیکن یہ تجارتی سرگرمیاں بنیامن نتن یاہو کے وزیر اعظم بننے کے بعد ختم ہو گئیں جب اسرائیل نے لبنان میں دخل اندازی شروع کی اور فلسطینیوں کی جانب سے دوسرے انتفادہ کا آغاز ہوا
لیکن اب حالیہ سالوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے عزائم کی روشنی میں اسرائیل اور خلیجی ممالک میں تعلقات تیز رفتاری سے بڑھے ہیں
بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں اگر اسرائیل اور امارات کے معاہدے میں کوئی رخنہ نہ پڑے تو بحرین، عُمان اور قطر بھی متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کریں
لیکن سعودی عرب شاید ایسا فوری طور پر نہ کر سکے
یہ سنہ 2002 کی بات ہے جب اس وقت کے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے ایک امن منصوبہ بیروت میں پیش کیا تھا جس کے مطابق عرب ممالک اسرائیل کی حیثیت کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے بشرطیکہ اسرائیل اپنی سرحد سن 1967
میں ہونے والی جنگ سے پہلے والی حدود تک واپس لے جائے
اس تجویز سے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شیرون کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن کچھ ہی دن بعد حزب اللہ نے بمباری شروع کر دی اور کسی بھی قسم کے مذاکرات ہونے کی امیدیں دم توڑ گئیں
آج مشرق وسطیٰ ایک مختلف جگہ ہے اور جو بات ماضی میں ناقابل یقین لگتی تھی، اب حقیقت بن گئی ہے
ایک اماراتی اہلکار کہتے ہیں یه معلوم ہے کہ معاہدے کا اعلان ہونے کے بعد آن لائن یو اے ای میں سب سے زیادہ کیا سرچ کیا جا رہا تھا لوگ ڈھونڈ رہے تھے اسرائیل میں ہوٹل لوگ بے چین ہیں اسرائیل جانے کے لیے
WHAT DOES THE UAE-ISRAEL AGREEMENT MEAN FOR THE GULF STATES
The historic game changer deception is being dubbed this month by US President Donald Trump's astonishing announcement that the UAE will now establish diplomatic relations with Israel .
Egypt signed a peace treaty with Israel in 1979, followed by Jordan in 1994.
After these two, the UAE has now become the third Arab country to formally establish diplomatic relations with Israel and the first of the six Arab states in the Gulf to do so.
Oman, Bahrain and possibly Morocco are expected to do the same in the future
Relations between the UAE and Israel have been secret for years, but details of the latest deal have been kept secret until the end.
The UAE Foreign Ministry in Abu Dhabi was not consulted and no other Arab country in the region was consulted.
The announcement came as a shock to everyone, but the biggest shock came to the Palestinians, who called the decision a "stab in the back because they have not yet been given a separate state and the Israeli occupation will not end." Is visible
Commenting on the agreement, Emil Hokaim of the International Institute for Strategic Studies in London said: "It has nothing to do with the Palestinians.
For Sheikh Mohammed bin Zayed, the UAE's crown prince and de facto ruler, the deal is nothing short of a gamble, but his chances of winning the game are high.
The clear danger in this agreement is that this decision will make the UAE very unpopular among Muslims in the region and they have faced criticism on social media and people are accusing them of being booked.
And if Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu backtracks on his promise not to annex the West Bank, it will not only be a disgrace to the Emirati sheikh, but it could end the deal.
But on the other hand, to do so would mean to invite criticism from the White House as well, and anyway, the demonstrations by the general public in the Gulf states do not please the state and they do not tolerate it.
However, Emil Hoqueim says the risks to the UAE may be lower in the near future
"This agreement will not affect the UAE's reputation in the region. It reflects the changing political situation in the region and will help the UAE gain acceptance in the United States, which has been affected by the UAE's involvement in the war in Yemen.
The question arises as to what are the motives of this agreement and what is the benefit to it for the UAE which is a relatively new state in itself and was established only in 1971.
In short, the two answers are technology and strategic interest
The UAE, including Saudi Arabia and Bahrain, not only does not trust its regional neighbor Iran, but may be afraid of it.
Gulf leaders look at a map of the region and see how, despite numerous sanctions, Iran is consolidating its interests in other countries and expanding its presence in the Middle East, and Iran's proxy groups are now in Iraq. , Syria and Yemen
Israel has similar concerns, especially when it comes to Iran's nuclear program
Then there is the concept of 'political Islam', which has been propagated by the Muslim Brotherhood and some Gulf leaders see it as a threat to their monarchy.
The person who dislikes the Muslim Brotherhood the most is the Crown Prince of the United Arab Emirates. Perhaps that is why the UAE has helped forces fighting the Brotherhood in Libya
Given the ground realities, this strategy has led to an undeclared partnership between various conservative countries in the Middle East, including Israel, which is now taking advantage of their intelligence agency capabilities. Is
Then there is technology, which includes biotechnology, health, defense, and cyber surveillance. The UAE is already using Israeli-made espionage programs against its citizens
Israel is at the forefront of technology in the region. And if their agreement with the UAE succeeds, it will be very useful for the UAE in the future and will benefit its own citizens.
I remember calling the Israeli office in Muscat to take a stand, and the caller greeted me in Hebrew, but immediately changed it and greeted me in Arabic.
This is not the first time that Israel has tried to establish its own ceremonies with other countries in the region.
In 1995, then-Israeli Prime Minister Yitzhak Rabin, who was assassinated by an extremist Jew, sent his Foreign Minister Shimon Peres on an official visit to Oman and Qatar.
Israel has since set up commercial offices in the two countries, but not much publicity
I remember calling the Israeli office in Muscat to take a stand, and the caller greeted me in Hebrew, but immediately changed it and greeted me in Arabic.
But those trade activities ended after Benjamin Netanyahu became prime minister, when Israel began intervening in Lebanon and a second Palestinian intifada began.
But now, in light of Iran's growing ambitions in recent years, relations between Israel and the Gulf states have grown rapidly.
It is possible that in the future, if there is no breach in the agreement between Israel and the UAE, Bahrain, Oman and Qatar will follow in the footsteps of the UAE and establish relations with Israel.
But Saudi Arabia may not be able to do so immediately
This is from 2002, when the then Saudi Crown Prince Abdullah presented a peace plan in Beirut, according to which the Arab countries were ready to fully recognize Israel's status, provided that Israel established its border in 1967.
Take me back to the pre-war frontier
The proposal forced then-Israeli Prime Minister Ariel Sharon to step down, but a few days later Hezbollah began bombing and hopes for any talks were dashed.
Today, the Middle East is a different place, and what used to be unbelievable is now a reality.
An Emirati official says it is known what has been the most searched online in the UAE since the agreement was announced. People were looking for hotels in Israel. People are anxious to go to Israel.
Comments
Post a Comment